سوال: اعتکاف کن کن صورتوں میں فاسد ہوجاتا ہے ؟
جواب: رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف ’’سنّتِِ مُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفایہ‘‘ ہے ،جس کے لیے روزہ شرط ہے، اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’مُعتکف کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ نہ کسی مریض کی عیادت کو جائے، نہ کسی جنازے میں شریک ہو، نہ کسی عورت کو چھوئے، نہ ازدواجی عمل کرے، نہ ہی کسی ناگُزیر ضرورت کے بغیر کسی ضرورت کے لیے (مسجد سے) باہر نکلے اور روزے کے بغیر اعتکاف نہ کرے اور جامع مسجد میں (ہی اعتکاف کرے )،(سُنن ابو داؤد ،رقم الحدیث:2473)‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مُعتکف کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ گناہوں سے رکا رہتاہے اور (باوجود اِس کے کہ وہ مسجد میں ٹھہرا ہواہے اور اُن نیکیوں کے لیے مسجد سے نہیں نکلتا لیکن) اُس کے لیے نیکیاں جاری رہتی ہیں جیسے کہ وہ ان تمام نیکیوں کا کرنے والا ہے، (سُنن ابن ماجہ ،رقم الحدیث:1781)‘‘۔
اعتکاف کی صحت کے لیے مفسدات سے بچنا ضروری ہے، ۱۔ معتکف کو طبعی وشرعی ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے، رات میں نہ دن میں، اگر بلاضرورت ایک لمحہ کو بھی نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔
(الف) شرعی عذر سے مرادغسلِ واجب یاوضو کے لیے مسجد سے نکلنا۔
(ب) طبعی عذر سے مراد قضائے حاجت کے لئے مسجد سے نکلنا۔
۲۔ اگر مسجد میں جمعہ نہیں ہوتا تو جمعہ پڑھنے کے لیے دوسری مسجد میں جانا عذرِ شرعی ہے، اس کے لیے اذان جمعہ کے بعد نکلے۔
۳۔ کسی وقت کوئی حادثہ ہوجائے تو جان ومال بچانے کے لیے مسجد سے نکلنا جائز ہے۔
۴۔ مریض کی عیادت اور نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے اگر مسجد سے باہر گیا، تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔
۵۔ بیوی سے جماع کرنا، بوسہ دینا، لمس اور معانقہ کرنا یہ تمام امور ناجائز ہیں، ان سے اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔
۶۔ معتکف کوبے ہوشی یا جنون طاری ہوا اور اتنا طول پکڑ گیاکہ روزہ نہ ہوسکے تو اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے اور قضا واجب ہے۔
۷۔ مرض کے علاج کے لیے مسجد سے نکلے تو اعتکاف فاسد ہوگیا۔
۸۔ اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے، اس لیے روزہ توڑنے سے اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے خواہ یہ روزہ کسی عذر سے توڑا ہو یا بلا عُذر، جان بوجھ کر توڑا ہویا غلطی سے ٹوٹا ہو، ہرصورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، غلطی سے روزہ ٹوٹنے کامطلب یہ ہے کہ روزہ تویاد تھا لیکن بے اختیار کوئی عمل ایسا ہوگیا جوروزے کے منافی تھا مثلاً صبح صادق طلوع ہونے کے بعد تک کھاتے رہے یاغروبِ آفتاب سے پہلے ہی اذان شروع ہوگئی یا افطار کرلیا پھر پتاچلاکہ وقت سے پہلے افطار کرلیاہے، اس طرح بھی روزہ ٹوٹ جائے گا یا روزہ یاد ہونے کے باوجود کلّی کرتے وقت بے اختیار پانی حلق میں چلا گیا، توان تمام صورتوں میں روزہ جاتارہا اوراعتکاف بھی فاسد ہوگیا۔
جن امور کی ممانعت(مثلاً جماع وغیرہ) اعتکاف کی وجہ سے ہے، اُن کے لیے مسجد سے نکلنا منع ہے ، عمداً اور نسیاناً مسجد سے باہر نکلنے پر حکم یکساں ہے اور جن امورکی اعتکاف میں ممانعت روزے کی وجہ سے ہے، مثلاً کھانا، پینا، ان کے عمداً ارتکاب کی وجہ سے اعتکاف فاسد ہوگا اور بھول کر کرنے سے فاسد نہیں ہوگا۔
۹۔مُعتکف کو غسلِ فرض اور غسلِ مسنون (جمعۃ المبارک کا غسل )کے علاوہ ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ علامہ یوسف بن عمر الصوفی الکماروی لکھتے ہیں: ’’معتکف کے لیے پانچ چیزوں کی وجہ سے مسجد سے نکلنا جائز ہے : (۱) پیشاب (۲) پاخانہ (۳) وضو (۴) غسل خواہ فرض ہو یا نفل (۵) جمعہ پڑھنے کے لیے ‘‘۔ (جامع المضمرات والمشکلات شرح مختصر القدوری(مخطوطہ )ص:170)
پہلے ہم نے اعتکاف کی حالت میں غسلِ مسنون(جمعہ کے غسل) کی ممانعت کا لکھا تھا مگر اب ان فقہی حوالہ جات کی وجہ سے ہم نے اس کے جواز کا قول کیا ہے، اگر رمضان مبارک کے آخری عشرے کے اعتکاف کی نیت کی ہے اور بلا عذر یاکسی عذر کے سبب اعتکاف توڑ دیا، تو صرف ایک دن کی قضا لازم آئے گی، اگر رمضان مبارک میں قضا کرے تو رمضان کا روزہ اُس کے لیے کافی ہے، ورنہ غیر رمضان میں قضا کرنے کے لیے روزہ بھی لازم ہوگا۔