ماہ رمضان کا مقدس مہینہ ہم سے رخصت ہونے کو ہے حدیث نبی ﷺ کے مطابق پہلے عشرے میں روزوں کا اہتمام کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی برکتیں نازل ہوتی ہیں دوسرے عشرے میں رحمتیں اور تیسرا عشرہ مغفرت کا ہے اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں نے جتنی برکتیں اور رحمتیں سمیٹنی تھیں سمیٹ لیں اور اب آخری دنوں میں مغفرت کے منتظر ہونے کیساتھ ساتھ ہر طرف گہما گمی ہے
عید الفطر کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں تقریباً 20 دنوں سے سنسنان بازار پھر سے آباد ہوگئے اور صبح سے شام تک کپڑے، چوڑیاں، شوز سنٹرز اور مہندی کی دکانوں پر تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق خریداری میں مصروف ہے عید کارڈ تبادلوں اور پیاروں کو سندیسے بھیجنے کا روایتی سلسلہ اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔
لیکن کیا آپ نے سوچا ہے کہ ہم واقعی عید مناتے ہیں؟ عید کے معنی ہیں خوشی، جو عصر حاضر میں ایسی نایاب شے بن چکی ہے جو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی بدامنی حرص،کمر توڑمہنگائی اور لالچ نے ہم سے ساری خوشیاں چھین لی ہیں دو فیصد اشرافیہ 98 فیصد عوام کو انگلیوں پر نچھا رہا ہے جہاں رمضان کے دو عشروں میں افطاری کے نام پر رشوت وصول کی جاتی ہے وہاں اب عیدی کے نام پر لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے سرکاری دفاتر کے افسران کلرک بادشاہ کے ذریعے غریب ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کر رہے ہیں ٹریفک پولیس کے اہلکاروں نے بازاروں سے نکل کر عیدی مہم شروع کردی ہے اور شاہراہوں پر ناکے لگا کر ڈرائیوروں سے عیدی کے نام پر جہنم کی آگ وصول کر رہے ہیں گاڑیوں کے مالکان نے مسافروں کی مجبوری سے خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے کرایوں میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے ٹیلر ماسٹر صاحبان عوام کے گلوں پر چھری کی جگہ قینچی چلا رہے ہیں مٹھائی کی دکان پر نہ صرف ناقص مال کو اصلی کی جگہ نکالا جا رہا ہے بلکہ منہ مانگے دام بھی وصول کئے جا رہے ہیں پھل فروش پھلوں کو سونے کے بھاؤ بیچ رہے ہیں غرض یہ کہ ایک مسلمان بھائی نے دوسرے مسلمان بھائی کو لوٹنے کا دھندہ شروع کر رکھا ہے۔
کیا یہی احترام رمضان ہے؟
قارئین کرام!! میں مانتا ہوں کہ امریکہ اور یورپ کے نام سے مشہور ”ابلیس اعظم“ اور انکے چیلوں نے پوری دنیا کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے ہر طرف گولہ بارود قتل وغارت، عصمت دردی اور دھماکوں کا بازار گرم کرکے بنی آدم کا سکھ چین غارت،بالخصوص مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے عراق میں لاکھوں قتل ہوئے افغانستان میں بے گناہ لوگوں کی زندگیاں چھین لی گئیں فلسطین کے مسلمان چیخ رہے ہیں وطن عزیز بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے معصوم بچے اپنوں کے ہاتھوں یتیم ہو رہے ہیں ماؤں کے گودا جڑ رہے ہیں ۔
جوان جہان دلہنوں کے اور مستقبل کے سہانے سپنے دیکھنے والی خواتین کے سہاگ اجڑ رہے ہیں لیکن کیا ہم نے اپنی منجی تلے ڈانگ پھیری ہے؟ اپنے گریبانوں میں جھانک کردیکھاہے؟ کہ ہم اپنے بھائیوں کیساتھ کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہم مصنوعی مہنگائی، لالچ و حرص اور حرام خوری کے ذریعے ایک دوسرے کا سکھ چھین اور خوشیاں برباد نہیں کر رہے ہیں؟ ہر کوئی دوسرے کے ہاتھوں پہنچنے والی تکلیف کا دکھڑا سنا رہا ہے لیکن کبھی یہ نہیں سوچتا کہ میرے قول و فعل سے دوسروں کا کیا حشر ہوتا ہے مٹھائی بیچنے اور خریدنے والا، کپڑا بیچنے اور خریدنے والا جوتے بیچنے اور خریدنے والا، کپڑے سلنے اور سلوانے والا، عیدی کے نام پر بھتہ لینے اور دینے والا ایک ہی نبی آخر زمان ﷺ کے امتی ہیں اور سب نے ایک دوسرے کیلئے دنیا جہنم میں تبدیل کردی ہے لیکن ہم سوچنے سے قاصر ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کوئی عید عید نہ رہی، کوئی شادی خوشی نہ رہی جوں جوں ہماری لالچ بڑھ رہی ہے خوشیاں ہم سے دور بھاگ رہی ہیں روایتی خوشیاں اور روایتی عیدیں۔
قارئین،سامعین کرام!!! آج سے پانچ ،چھ سال قبل بڑے تو فکر مند دکھائی دیتے تھے اور ان کے چہروں پر مایوسی کے آثار آہستہ آہستہ نمودار ہو رہے تھے لیکن کم از کم بچے دنیا و مافیہا ہے نا آشنا ہنسی خوشی کھیلتے کودتے عید مناتے تھے لیکن اب میں دیکھ رہا ہوں کہ اپنے بڑوں کو طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا دیکھ کر بچے بھی مایوسی اور تفکرات میں مبتلا ہو رہے ہیں جو یقینناً ہماری آنیوالی نسلوں کی تباہی ہے
بقول شاعر
غربت نے سکھا دی میرے بچوں کو یہ تہذیب
سہمے ہوئے کھڑے ہیں شکایت نہیں کرتے
قارئین کرام!! اب بھی وقت ہے کہ ایک دوسرے کو مصیبتوں میں مبتلا کرنے کی بجائے ان کی خوشیوں کا سوچیں صاحب ثروت لوگ اپنے بچوں کیلئے قیمتی کھلونے اور کپڑے،جوتےخریدتے وقت تھوڑا اپنے پڑوسی مزدور اور غریب کے بچوں کی بھی خبر لیں کہ انکی عید کیسی گزریگی یقین جانئے اگر آپ نے ایسا کیا تو آپکی روایتی عید دلی مسرتوں میں بدل جائیگی اور یہی سردار دو جہاں حضرت محمد ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ تم دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانیاں پیدا کریگا۔
خدا آپ کا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔