محمد حسنین کی کتاب ” گمنام سردار“ پر ایک نظر
تحریر پروفیسر عزیز قریشی.
ہمارےبرصغیر کی تاریخ مختلف ادوار پر مشتمل ہے جیسے تاریخ سلاطین دھلی، تاریخ غلاماں اور مغلیہ دور وغیرہ. الغرض یہ ایک بسیط دور پر مشتمل طویل کہانی ہے
جو بڑے بڑے، بادشاہوں، وزیروں، سرداروں، اولیاء ومشایخ اور علم وحکمت سے لبریز عہد ساز شخصیات سے مامور حالات و واقعات ہیں جوایک بحر عمیق کی موجوں کی مانند ہمارے ذہنوں اور آنکھوں کے سامنے لرزاں و رقصاں ہیں.
پشتون قبایل میں ممیز و ممتاز خٹک قوم بہت بڑی تاریخ رکھتی ہے.
پشتو ادب پر خوشحال خان خٹک کا احسان عمر بھر قایم و دایم رہے گا. موصوف ایک نابغہ روزگار شخصیت کے حامل تھے.
آپ نے پشتو ادب کو زندگی سے قریب تر کردیا. ہر قسم کے مضامین سے پشتو ادب کو مالا مال کیا. پشتو شاعری کو عروض سے اشنا کیا. غرض قلم و شمشیر کے دھنی نے ھر میدان میں ایسی تھاک بٹھای کہ بجا طور پر آپ شمشیر و قلم کے خاوند کے لقب سے سرفراز ہوۓ.
آپ نے علم کی جو شمع روشن کی تھی آپ کی اولاد اشرف خان ھجری، عبدالقادر خان، صدر خان اور پھر آپ کے پوتے افضل خان اور دیگر نے اُسے جلاۓ رکھا اور آپ کے نقش قدم پر قدم رکھا اور پشتو ادب کو گرانمایا سرمایۂ بخشا.
بقول شخص کہ اگر پشتو ادب سے خوشحال خان خٹک کا نام ہٹایا جاۓ تو پشتو ادب تہی دست رہ جاۓ گا.
خوش قسمت ہوتے ہیں وہ والدین جن کی اولاد اپنے ابا و اجداد کا نام روشن کرتی ہے اور اپنے ابا و اجداد کے کار ناموں کواُجاگر کرتی ہے. ایسے قابل ستایش افراد میں محمد حسینین نے اپنے آپ کو اسی رنگ میں پیش کردیا ہے اپنے ابا و اجداد خاندان اکوڑ خیل کی تاریخ لکھ کر اس خاندان کے حالات و واقعات اور اپنی علمی ادبی کاوشوں کو اُجاگر کیاہے.
حال ہی میں محمد حسنین نے خاندان اکوڑخیل پر ایک تاریخی کتا
لکھی ہے جس میں ان تمام سردارانِ اکوڑخیل روساۓ خٹک کا احوال قلمبند کیا ہے اور سینہ بہ سینہ روایات و واقعات کو تاریخ کے سپرد کیا ہے.
یہ تاریخ درویش محمد خان سے شروع ہوتی ہے اور آخری نواب بازمحمد خان پر ختم ہوتی ہے. "گمنام سردار” پڑھنے پر اس خاندان کے مکمل عمرانی حلات کا پورا نقشہ آنکھوں کے سامنے چھا جاتا ہے. ریاست ٹیری کی بنیاد کب اور کیسے پڑی؟، یہ ریاست کیسے قایم ہوی؟ نسل در نسل سرداری اور نوابی کس سے کس کو اور کن حالات میں منتقل ہوئی ؟ تاریخی طور پر یہ تمام حالات و واقعات انتہائی امانت داری اور دستاویزی شہادتوں و مستند دلائل کے ساتھ سپرد قلم کئے گئے ہیں.
نواب بازمحمد خان کے بعد اس خاندان کے اسماءالرجال کا مختصر تعارف بھی اس کتاب کا حصہ ہے. مفصل شجرہ نسب بھی مصنف کی کاوشوں سے مرتب کیاگیا ہے اور اس جانفشاں کام کے لیے مصنف نے خوب کاوش کی ہے.
تشکر اور تہنیت کے لیے ٹیری کے اسماءالرجال پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے جن میں نمایاں طور پر نوابزادہ صبح صادق خان ہیں، جن کے سینے میں اسی خاندان کی بہت بڑی تاریخ چھپی ہوٸ تھی اور ان کی ڈایریوں میں مستند روایات و واقعات رقم تھے. نوابزادہ صبح صادق ایک علمی شخصیت کے حامل شعر و ادب میں ایک اونچے مینار کی حثیت رکھتے تھے. نوابزادہ سبح صادق خان کے ہونہار پڑپوتے محمد حسنین نے اپنے دونوں بھایوں عاطف حسین اور شجاعت حسین کو بھی آرام سے بیھٹنے نہیں دیا اور اُن سے خوب خوب استفادہ کیا. فاضل مصنف نے اپنے والد ماجد مرحوم ھمراز نواب خان، نوابزادہ محمد فاروق خان مرحوم اور خاندان کے دیگر افراد نے اس کے ساتھ اسی کتاب کے مرتب کرنے میں معاونت کی ہے.
ریاست ٹیری اور ٹیری کی وجہ تسمیہ پر بھی اپنی تحقیق کے تحت بحث کی ہے.
پانچ سو سال پر محیط خاندان اکوڑخیل کی مکمل تاریخ کا ایک اجمالی خاکہ گمنام سردار کی صورت میں محمد حسنېن کےقلم کی مرہونِ منت ہے. علااہ خٹک کے علمی س ادبی حلقوں نے اس گرانقدر تحقیق کس ہاتھوں ہاتھ لیا ہے اور اس کو پختون قبائل کی گم گشتہ تاریخ کی بحالی کے سلسلے کا ایک انمول ہیرا قراف دیا ہے. ان حلقوں نےتوقع ظاہر کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ فاضل مصنف خاندان اکوڑ خیل کی سرائے اکوڑی، زیڑہ پٹیالہ ، چختو، درملک، نظام پور اور دیگر شاخوں کی تاریخ مرتب کرنے کی سعی جاری رکھیں گے. تاکہ صاحب سیف قلم حضرت خوشحال خان خٹک کے فاضل خاندان کے زیادہ سے زیادہ حالات سامنے آسکیں.