اللہ تعالیٰ نےانسان کو عقلِ سلیم عطا کی ہے۔ اسی عقل کی بنیاد پر وہ بڑے بڑے فیصلے کرتا ہے۔ اسی عقل کی بنیاد پر وہ لوگوں کو اپنی رائے سے بھی نوازتا ہے۔
انسانوں میں ایک شخص وہ ہوتا ہے جو عام لوگوں سے ذرا ہٹ کر سوچتا ہے۔ دنیا کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ عام لوگوں کے برعکس زیادہ غورو فکر کرتا ہے۔ وہ جو بات کہتا ہے (اور اگر وہ درست ہو یا نہ ہو تب بھی)، تو اس کی بات سند بن جاتی ہے۔ بعد میں لوگ اپنی تحریروں میں اس کی مثال دیتے ہیں کہ فلاں مدبر یا محقق، فلاں سیاست دان یا فلاں سائنس دان، فلاں ماہرِ جغرافیہ یا فلاں ماہرِ معیشت وغیرہ، نے ایسا ایسا کہا تھا۔
جب کوئی تحریر لکھی جاتی ہے تو اس کے مخاطبین عموماً چار طرح کے ہوتے ہیں۔ 1۔ محققین، 2۔ طلبا، 3۔ بچے، 4۔ عامۃ الناس (ہر طبقے کے لوگ)
محققین: تحریر اگر محققین طلبا کےلیے لکھی جاتی ہے، تو ایک محقق، تحقیق کے تمام اصولوں کو اپنے پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی تحریر کا مقصد و پیغام دیتا ہے۔ جیسے، سب سے پہلے ’خلاصہ abstract‘ لکھنا یا کوئی بھی حوالہ دینے کےلیے باقاعدہ حوالہ جات دینے کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے پورا تحقیقی مسودہ تیار کرتا ہے۔ اس مسودے میں ہوسکتا ہے کہ وہ ایسے الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال کرے جو عوام میں مقبول نہ ہوں، لیکن اس کے جو مخاطبین ہیں، وہ ان الفاظ اور اصطلاحات سے آشنا ضرور ہوں گے۔ اگر نہ بھی ہوں تو ان کےلیے تحقیق کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا۔