’’سینیٹ نے اکثریت سے نااہلی کے خلاف بل منظور کرلیا، جس کے مطابق نااہلی کی مدت 5 سال کرنے اور الیکشن کی تاریخ کا اعلان صدر سے واپس لے کر الیکشن کمیشن کو دے دیا۔ ساتھ ہی سینیٹر اور اراکین اسمبلی کی مراعات میں بھی اضافہ کردیا گیا اور اس کا بھی بل اکثریت سے منظور ہوگیا۔ فضل الرحمٰن نے وزیراعظم سے ملاقات کی اور ملکی سیاست پر گفتگو کی۔ شرجیل میمن نے اسمبلی میں کھڑے ہوکر کہا کہ کراچی آنے سے کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا۔‘‘
کیا عوام کو اب ان خبروں میں کوئی دلچسپی ہے؟ ملک میں کون کیا کررہا ہے، کون کیا نہیں کررہا؟ عوام کو اب ان خبروں میں بالکل بھی دلچسپی نہیں رہی نہ ہی انھیں ان باتوں سے کوئی سروکار ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عوام مہنگائی کا مقابلہ کرتے کرتے مررہے ہیں۔ روز صبح اٹھتے ہیں تو کسی نہ کسی چیز پر دس، بیس روپے کا اضافہ ہوچکا ہوتا ہے۔سینیٹ اور اسمبلیوں سے پاس ہونے والے بلز میں عوام کےلیے کچھ نہیں رکھا۔ ان بلز کے ذریعے عوام کو محض لولی پاپ دیا جارہا ہے۔ ان اجلاسوں پر ہونے والے اخراجات عوام کی جیب سے نکالے جاتے ہیں، مگر ان اجلاسوں سے عوام کو نہ اب کوئی دلچسپی رہی اور نہ ہی ان میں اب عوام کےلیے کچھ باقی بچا ہے۔
جتنے بھی اجلاس ہوئے ان سب کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو جتنا فائدہ حکمران جماعت کو دیاجاتا ہے، اس کا ایک فیصد بھی عوام کو میسر نہیں ہوتا۔ یہ لوگ منتخب ہوکر محض اپنی خدمت کرتے ہیں، اپنے اہل خانہ اور اپنے خاندان کو سرکاری خزانے سے عیاشی کروائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ جب انتخابات آتے ہیں عوام کے خدمت گار ہونے کے دعوے دار گلیوں گلیوں میں خوار نظرآتے ہیں۔ لیکن جو جیت جاتے ہیں وہ کبھی پلٹ کر نہیں آتے، اور جو ہار جاتے ہیں وہ اپنا پیسہ وصول کرنے کے چکر میں انہی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیتے ہیں۔ اس سے غربت اور مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کےلیے کچھ نہیں ہوتا۔