-ہم نے طے کی اس طرح سے منزلیں
گر پڑے گر کر اٹھے اٹھ کر چلے
ایک مسافر اپنے طویل سفر میں جب تھک جاتا ہے اور اندھیروں سے لڑتے لڑتے کسی گہری کھائی میں جا گرتا ہے ، نہ آنکھوں میں جینے کی رمک دکھائی دیتی ہے نہ اپنی زندگی کی جلتی ہوئی لو اور وہ سمجھتا ہے کہ اب سب ختم ، اس قدر اندھیرے میں گر جاتا ہے کے ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا ہوتا اور منزل کا کچھ پتہ نہیں ہوتا بس ایک نہ ختم ہونے والا سفر ہوتا ہے اور وہ خود ہوتا ہے اور راستے کی وہ تکالیف جو کہ اسے زخمی کر رہی ہوتی ہیں۔ ہاتھ اور پاؤں شل ہونے تک کو آ جاتے ہیں لیکن پھر بھی چلے جانا ہوتا ہے منزل کا پتہ ہوتا نہیں سفر پھر بھی اسکا جاری رہتا ہے ۔
یکا یک اسے جینے کی رمک دکھائی دیتی ہے ہاتھ کو ہاتھ سجھائی دیتا ہے زندگی کی جلتی ہوئی لو شمع کی مانند دکھائی دیتی ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ ابھی بھی سب ختم نہیں ہوا جب تک سانس چلتی ہے تب تک سفر جاری رہے گا ۔ پھر سے ہمت مرداں پنپتی ہے وہی مسافر جب نئے ارادے سے سفر کا اغاز کرتا ہے تو وہ منزل تک پہنچنے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ دوران سفر تھکنے کے لیئے ، دوران سفر تو مشکلیں جھیلنی ہی ہوتی ہیں وہ تو منزل تک پہنچنے کا ذریعہ ہے لیکن غلط تو تب ہے کہ جب ان مشکلوں سے ڈر کر اپنا سفر ہی چھوڑ دیا جائے ناخوشگوار بات تو تب ہے کہ جب جینے کا مقصد بھلا دیا جائے اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ جنگ میں جینے کا جو مزہ ہے وہ عام جینے میں کیا؟ پھر چاہے وہ جنگ اپنے خیالات سے ہی کیوں نہ ہو ، پھر چاہے وہ جنگ اپنے آس پاس کے ماحول سے کیوں نہ ہو ، پھر چاہے وہ جنگ اپنی کمفرٹ زون سے باہر نکلنے کی ہی کیوں نہ ہو ، پھر چاہے وہ جنگ اپنے خوابوں کو پانے کے لیے ہی کیوں نہ ہو، بس اہم یہ ہے کہ ہارنا نہیں اگر ہار بھی گئے تو پھر سے اٹھنا ہے اور جنگ میدان میں ایک نیا کھلاڑی بن کر اترنا ہے کیونکہ وہ شاہ سوار ہی کیا جو گر کر اٹھ نہ سکا۔
شاعر نے اس کو کیا ہی بہترین انداز میں بیان کیا ہے۔
-شاہ سوار ہی گرتے ہیں میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے