ہمارے پیارے ملک کی قسمت ہی کچھ ایسی ہے کہ اسے ہمیشہ سے بے وفائی کا سامنا ہی رہا۔ اس نے جس سے وفا کی اسی نے اس کو نقصان پہنچایا۔ اور جس نے اسے فائدہ پہنچانے کا چارہ کیا، اسے کسی المیے سے دوچار کردیا گیا۔
یہاں پر جو خاموش اکثریت ہے، اس نے خاموشی ہی کو اپنا مقصد عظیم جانا اور مانا اور منہ پھٹ اقلیت کو اپنی من مانی کرنے دی، اسے کسی بھی زیادتی پر نہ روکا نہ ٹوکا۔ یہاں جو بولتا ہے اس کے سارے کام آسان ہوجاتے ہیں، اسے سب پلکوں پر بٹھانے لگتے ہیں اور جو خاموش اکثریت میں شامل ہوجائے اسے خاموش سمجھ کر خاموش ہی کروا دیا جاتا ہے۔جو منہ پھٹ، بدلحاظ اور بے مروت ہوتے ہیں، جن کا سوائے اپنے مفاد اور کرسی کے حصول کے کوئی اور مقصد نہیں ہوتا، انہیں ان کی جھوٹی دلیلوں پر ہی رعایت دے دی جاتی ہے اور جو خاموشی سے سب کچھ سہہ جائے، ظلم کے ضابطے لب سی کر مان جائے، اس پر ہی ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ جو سرعام گالی دے، پاگل پن کی حد سے آگے نکل کر بے عزتی کرے اور ہر سطح ہر فورم پر زبان گندی کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دے، اسے ہر کوئی اس کی دہلیز پر سہولتیں فراہم کرتا جاتا ہے اور وہ اس گالم گلوچ اور بدزبانی کو اپنی حکمت عملی اور کامیاب بیانیہ سمجھ کر ہمیشہ کےلیے اپنے علاوہ سب کو بے عزت کرنے کو اپنا مقصد اولین بنا لیتا ہے اور صاحب طاقت ایوانوں کو یوں اپنے آگے ہانکنے لگتا ہے جیسے وہ بھیڑ بکریاں ہوں۔ اس کے چاہنے والے بھی اور اگر اس کی کوئی پارٹی ہو تو اس کے (غیر) معزز اراکین بھی دوسروں کی حرمت کی دھجیاں اڑانے میں بے مثال ہوجاتے ہیں۔
اس کے خلاف پہلے تو کوئی جرأت نہیں کرتا کہ کوئی بات کہہ دے اور اگر کوئی ایسا کردے تو پھر اسے آخرت کے گھر تک پہنچا کر دم لیا جاتا ہے۔ ایسے لچرپن سے نفرت تو ہر کوئی کرتا ہے مگر اس کے بارے ہر کوئی ڈر(م) گوشہ رکھنے لگتا ہے (جو نرمی کی وجہ سے ہو وہ نرم ہوتا ہے اور جو ڈر کی وجہ سے ہو اسے ڈرم گوشہ کہہ سکتے ہیں)۔
یہ ڈرم گوشہ وقتی طور پر تو اسے بہت سی مصیبتوں سے بچاتا جاتا ہے مگر اس کی افتاد مادر وطن پر آ پڑتی ہے۔ مادر وطن کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی جاتی ہیں اور ملک دشمن عناصر کو من مانی کا موقع میسر آجاتا ہے۔ ڈرم گوشہ بے یقنی کو جنم دیتا ہے اور بے یقینی کی فضا کسی بھی ملک و قوم اور ریاست پر ایسا ظلم عظیم ہے جس کا مداوا صدیوں میں بھی ممکن نہیں ہوتا اور دشمن اسی بے یقینی کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اپنی مرضی کے فیصلے کرواتا ہے۔